جب ترا حکم ملا ترک محبّت کر دی

جب ترا حکم ملا ترک محبّت کر دی
دل مگر اس پہ دھڑکا کہ قیامت کر دی
تجھ سے کس طرح میں اظہار محبّت کرتا
لفظ سوجھا تو معانی نے بغاوت کر دی
میں تو سمجھا تھا کہ لوٹ آتے ہیں جانے والے
تو نے جا کر تو جدائی مری قسمت کر دی
مجھ کو دشمن کے ارادوں پہ پیار آتا ہے
تری الفت نے محبت مری عادت کر دی
پوچھ بیٹھا ہوں تجھ سے ترے کوچے کا پتہ
تیرے حالات نے کیسی تیری حالت کر دی
کیا ترا جسم تیرے حسن کی حدّت میں جلا
راکھ کس نے تری سونے کی سی رنگت کر دی

نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں

نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں

تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد

آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

نہ ملا کر اداس لوگوں سے

حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے

اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں

رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں

آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر

پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں