کل پرسش احوال کی جو یار نے میرے

کل پرسش احوال کی جو یار نے میرے
کس رشک سے دیکھا غمخوار نے میرے
بس اک ترا نام چپانے کی غرض سے
کس کس کو پکارا دل بیمار نے میرے
یا گرمئ بازار تھی یا خوف زبان تھا
پھر بیچ دیا مجھ کو خریدار نے میرے
ویرانی میں بڑھ کر تھے بیاباں سے تو پھر کیوں
شرمندہ کیا ہے در و دیوار نے میرے
جب شاعری پردہ ہے فراز اپنے جنوں کا
پھر کیوں مجھے رسوا کیا اشعار نے میرے

اداسیوں کا سماں محفلوں میں چھوڑ گئی

اداسیوں کا سماں محفلوں میں چھوڑ گئی

بہار ایک خلش سی دلوں میں چھوڑ گئی

بچھڑ کے تجھ سے ہزاروں طرف خیال گیا

تری نظر مجھے کن منزلوں میں چھوڑ گئی

کہاں سے لائیے اب اُس نگاہ کو ناصر

جو ناتمام امنگیں دلوں میں چھوڑ گئی