کل پرسش احوال کی جو یار نے میرے

کل پرسش احوال کی جو یار نے میرے
کس رشک سے دیکھا غمخوار نے میرے
بس اک ترا نام چپانے کی غرض سے
کس کس کو پکارا دل بیمار نے میرے
یا گرمئ بازار تھی یا خوف زبان تھا
پھر بیچ دیا مجھ کو خریدار نے میرے
ویرانی میں بڑھ کر تھے بیاباں سے تو پھر کیوں
شرمندہ کیا ہے در و دیوار نے میرے
جب شاعری پردہ ہے فراز اپنے جنوں کا
پھر کیوں مجھے رسوا کیا اشعار نے میرے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں