یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا

یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
چمکتے چاند بھی تھے شہرِ شب کے ایواں میں
نگارِ غم سا مگر کوئی شمع رو نہ ملا
انہی کی رمز چلی ہے گلی گلی میں‌یہاں
جنہیں اِدھر سے کبھی اذنِ گفتگو نہ ملا
پھر آج میکدہ دل سے لوٹ آئے ہیں
پھر آج ہم کو ٹھکانے کا ہم سبو نہ ملا

1 تبصرہ:

  1. پہلے آرزو، پھر آرزو کے بعد خونِ آرزو

    ایک فقرے میں بیاں ہے داستانِ زندگی

    جواب دیںحذف کریں