خیالِ ترکِ تمنّا نہ کر سکے تو بھی

خیالِ ترکِ تمنّا نہ کر سکے تو بھی

اداسیوں کا مداوا نہ کر سکے تو بھی

کبھی وہ وقت بھی آئے کہ کوئی لمحۂ عیش

مرے بغیر گوارا نہ کر سکے تو بھی

خدا وہ دن بھی دکھائے تجھے کہ میری طرح

مری وفا پہ بھروسا نہ کر سکے تو بھی

میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں

بڑا مزا ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی

تجھے یہ غم کہ مری زندگی کا کیا ہوگا

مجھے یہ ضد کہ مداوا نہ کر سکے تو بھی

نہ کر خیالِ تلافی کہ میرا زخمِ وفا

وہ زخم ہے جسے اچھا نہ کر سکے تو بھی

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے
میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو
بدن مرا سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے
میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں
برہنہ شہر میں ‌کوئی نظر نہ آئے مجھے
وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا
جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے
وہ میرا دوست ہے سارے جہاں‌کو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے
میں اپنی ذات میں نیلام ہورہا ہوں قتیل
غمِ حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے

رنگ برسات نے بھرے کچھ تو

رنگ برسات نے بھرے کچھ تو

زخم دل کے ہوئے ہرے کچھ تو

فرصتِ بے خودی غنیمت ہے

گردشیں ہو گئیں پرے کچھ تو

کتنے شوریدہ سر تھے پروانے

شام ہوتے ہی جل مرے کچھ تو

ایسا مشکل نہیں ترا ملنا

دل مگر جستجو کرے کچھ تو

آؤ ناصر کوئی غزل چھیڑیں

جی بہل جاۓ گا ارے کچھ تو