خیالِ ترکِ تمنّا نہ کر سکے تو بھی

خیالِ ترکِ تمنّا نہ کر سکے تو بھی

اداسیوں کا مداوا نہ کر سکے تو بھی

کبھی وہ وقت بھی آئے کہ کوئی لمحۂ عیش

مرے بغیر گوارا نہ کر سکے تو بھی

خدا وہ دن بھی دکھائے تجھے کہ میری طرح

مری وفا پہ بھروسا نہ کر سکے تو بھی

میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں

بڑا مزا ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی

تجھے یہ غم کہ مری زندگی کا کیا ہوگا

مجھے یہ ضد کہ مداوا نہ کر سکے تو بھی

نہ کر خیالِ تلافی کہ میرا زخمِ وفا

وہ زخم ہے جسے اچھا نہ کر سکے تو بھی

1 تبصرہ: