نہ ترا خدا کوئی اور ہے نہ مرا خدا کوئی اور ہے

نہ ترا خدا کوئی اور ہے نہ مرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو قسمتیں ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے
ترا جبر ہے مرا صبر ہے تری موت ہے مری زندگی
مرے درجہ وار شہید ہیں ، مری کربلا کوئی اور ہے
کئی لوگ تھے جو بچھڑ گئے کئی نقش تھے جو بگڑ گئے
کئی شہر تھے جو اجڑ گئے ابھی ظلم کیا کوئی اور ہے
نہ تھا جس کو خانہ خاک یاد ہوا نذر آتش و ابر و باد
کہ ہر ایک دن دن سے الگ ہے دن جو حساب کا کوئی اور ہے
ہوئے خاک دھول تو پھر کھلا یہی بامراد ہے قافلہ
وہ کہاں گئے جنہیں زعم تھا کہ راہ وفا کوئی اور ہے
یہ ہے ربط اصل سے اصل کانہیں ختم سلسلہ وصل کا
جو گرا ہے شاخ سے گل کہیں تو وہیں کھلا کوئی اور ہے
وہ عجیب منظر خواب تھا کہ وجود تھا نہ سراب تھا
کبھی یوں لگا نہیں کوئی اور ،کبھی یوں لگا کوئی اور ہے
کوئی ہے تو سامنے لائیے ، کوئی ہے تو شکل دکھائیے
ظفر آپ خود ہی بتائیے ، مرے یار سا کوئی اور ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں