یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم

یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم
لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم
مدّت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے
آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم
شاید بقیدِ زیست یہ ساعت نہ آسکے
تم داستانِ شوق سنو اور سنائیں ہم
بے نور ہوچکی ہے بہت شہر کی فضا
تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم
اُس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالب چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں