ہم نے ہی لَوٹنے کا ارادہ نہیں کیا

ہم نے ہی لَوٹنے کا ارادہ نہیں کیا
اس نے بھی بھول جانے کا وعدہ نہیں کیا
دکھ اوڑھتے نہیں کبھی جشنِ طرب میں ہم
ملبوس دل کو تن کا لبادہ نہیں کیا
جو غم ملا ہے بوجھ اٹھایا ہے اس کا خود
سر زیرِ بارِ ساغر و بادہ نہیں کیا
کارِ جہاں ہمیں بھی بہت تھے سفر کی شام
اس نے بھی التفات زیادہ نہیں کیا
آمد پہ تیری عطر و چراغ و سَبو نہ ہوں
اتنا بھی بود و باش کو سادہ نہیں کیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں