اے تغیر زمانہ یہ عجب دل لگی ہے

اے تغیر زمانہ یہ عجب دل لگی ہے
نہ وقارِ دوستی ہے نہ مجالِ دشمنی ہے
یہی ظلمتیں چھنیں جو ترے سرخ آنچلوں میں
انہی ظلمتوں سے شاید مرے گھر میں روشنی ہے
مرے ساتھ تم بھی چلنا مرے ساتھ تم بھی آنا
ذرا غم کے راستوں میں بڑی تیز تیرگی ہے
یہ مشاہدہ نہیں ہے مرے درد کی صدا ہے
میرے داغِ دل لیے ہیں تری بزم جب سجی ہے
غمِ زندگی کہاں ہے ابھی وحشتوں سے فرصت
ترے ناز اٹھا ہی لیں گے ابھی زندگی پڑی ہے
ترے خشک گیسوؤں میں مری آرزو ہے پنہاں
ترے شوخ بازوؤں میں مری داستاں رچی ہے
جسے اپنا یار کہنا اسے چھوڑنا بھنور میں!
یہ حدیثِ دلبراں ہے یہ کمالِ دلبری ہے
وہ گزر گیا ہے ساغر کوئی قافلہ چمن سے
کہیں آگ جل رہی ہے کہیں آگ بجھ گئی ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں