تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں

تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں
تجھ کو نہیں ملال تو ہم کس لئے کریں
دنیا کی بے رُخی تونہیں ہے کوئی جواز
اس شدتِ خلوص کو کم کس لئے کریں
تا عمر قربتوں کو تو امکان ہی ناں تھا
آنکھیں فراقِ یار کا غم کس لئے کریں
اپنا جنوں داد و ستائش سے بے نیاز
پھر بے خودی کا حال رقم کس لئے کریں
جن کے لئے افق پہ چمکتے ہیں راستے
مٹی پہ ثبت نقشِ قدم کس لئے کریں
مانوس ہو چکے ہیں اندھیروں سے اپنے لوگ
اب احتجاجِ صبحِ کرم کس لئے کریں
ساجد کوئی نئی تو نہیں ہے یہ تیرگی
آخر ملا لِ شامِ الم کس لئے کریں

خالی ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں

خالی ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں
اے گردش ایام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ساقی تجھے اک تھوڑی سی تکلیف تو پو گی
ساغر کو ذرا تھام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں
پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ادراک ابھی پورا تعاون نہیں کرتا
دے بادہ گلفام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں
حل کچھ تو نکل آئے گا حالات کی ضد کا
اے کثرت آلام میں کچھ سوچ رہا ہوں
پھر آج عدم شام سے غمگیں ہے طبیعت
پھر آج سر شام میں کچھ سوچ رہا ہوں

وہ اس ادا سے جو آئے تو یوں بھلا نہ لگے

وہ اس ادا سے جو آئے تو یوں بھلا نہ لگے

ہزار بار ملو پھر بھی آشنا نہ لگے

کبھی وہ خاص عنایت کہ سَو گُماں گزریں

کبھی وہ طرزِ تغافل کہ محرمانہ لگے

وہ سیدھی سادی ادائیں کہ بجلیاں برسیں

وہ دلبرانہ مروّت کہ عاشقانہ لگے

دکھاؤں داغِ محبّت جو نا گوار نہ ہو

سناؤں قصّۂ فرقت اگر برا نہ لگے

بہت ہی سادہ ہے تو اور زمانہ ہے عیّار

خدا کرے کہ تجھے شہر کی ہوا نہ لگے

بجھا نہ دیں یہ مسلسل اداسیاں دل کی

وہ بات کر کہ طبیعت کو تازیانہ لگے

جو گھر اجڑ گۓ ان کا نہ رنج کر پیارے

وہ چارہ کر کہ یہ گلشن اُجاڑ سا نہ لگے

عتابِ اہلِ جہاں سب بھُلا دیئے لیکن

وہ زخم یاد ہیں اب تک جو غائبانہ لگے

وہ رنگ دل کو دیئے ہیں لہو کی گردش نے

نظر اُٹھاؤں تو دنیا نگار خانہ لگے

عجیب خواب دکھاتے ہیں ناخدا ہم کو

غرض یہ ہے کہ سفینہ کنارے جا نہ لگے

لیے ہی جاتی ہے ہر دم کوئی صدا ناصر

یہ اور بات سراغِ نشانِ پا نہ لگے