جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا

جو حرفِ حق تھا وہی جا بجا کہا سو کہا
بلا سے شہر میں میرا لہو بہا سو بہا
ہمی کو اہلِ جہاں سے تھا اختلاف سو ہے
ہمی نے اہلِ جہاں کا ستم سہا سو سہا
جسے جسے نہیں چاہا اُسے اُسے چاہا
جہاں جہاں بھی مرا دل نہیں رہا سو رہا
نہ دوسروں سے ندامت نہ خود سے شرمندہ
کہ جو کیا سو کیا اور جو کہا سو کہا
یہ دیکھ تجھ سے وفا کی کہ بے وفائی کی
چلو میں اور کہیں مبتلا رہا سو رہا
ترے نصیب اگر جا لگے کنارے سے
وگرنہ سیلِ زمانہ میں جو بہا سو بہا
شکست و فتح مرا مسئلہ نہیں ہے فراز
میں زندگی سے نبرد آزما رہا سو رہا

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی!
تامّل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
کھنچے خود بخود جانبِ طور موسٰی
کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی!
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی

اس بھرے شہر میں میری طرح رسوا ہوتا

اس بھرے شہر میں میری طرح رسوا ہوتا
تجھ پہ حادثۂ شوق جو گزرا ہوتا
تو نے ہر چند زباں پر تو بٹھائے پہرے
بات جب تھی کہ مری سوچ کو بدلا ہوتا
رکھ لیا غم بھی ترا بار امانت کی طرح
کون اس شہر کے بازار میں رسوا ہوتا
جب بھی برسا ہے ترے شہر کی جانب برسا
کوئی بادل تو سر دشت بھی برسا ہوتا
آئینہ خانے میں اک عمر رہے محو خیال
اپنے اندر سے نکل کر کبھی دیکھا ہوتا
میری کشتی کو بھلا موج ڈبو سکتی تھی
میں اگر خود نہ شریک کف دریا ہوتا
تجھ پہ کھل جاتی مری روح کی تنہائی بھی
میری آنکھوں میں کبھی جھانک کے دیکھا ہوتا

کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا

کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا
اور اسیرِ حلقۂ دام ہوا کیونکر ہوا
جائے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا
کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلا کیونکر ہوا
ہے طلب بے مدّعا ہونے کی بھی اک مدّعا
مرغِ دل دامِ تمنّا سے رِہا کیونکر ہوا
دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا
حسنِ کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
وہ جو تھا پردوں میں پنہاں، خود نما کیونکر ہوا
موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے دردِ فراق!
چارہ گر دیوانہ ہے، میں لا دوا کیونکر ہوا
تو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدۂ عبرت کہ گل
ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا
پرسشِ اعمال سے مقصد تھا رسوائی مری
ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ، کیا ہوا، کیونکر ہوا
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
کیا بتاؤں ان کا میرا سامنا کیونکر ہوا

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر تیرا وعدہ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیماِن وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہر طرب یاد آیا
حاِل دل ہم بھی ُسناتے لیکن
جب وہ ُرخصت ہوا تب یاد آیا
بیٹھ کر سایہ ُگل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا

برسوں کے بعد ديکھا اک شخص دلرُبا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پر نام تھا بھلا سا
ابرو کھنچے کھنچے سے آنکھيں جھکی جھکی سی
باتيں رکی رکی سی لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں تھے
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا
خوابوں ميں خواب اُسکے يادوں ميں ياد اُسکی
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے رَتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا
اگلی محبتوں نے وہ نا مرادياں ديں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
کچھ يہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہيں تھے روئے
کچھ زہر ميں بُجھا تھا احباب کا دلاسا
پھر يوں ہوا کے ساون آنکھوں ميں آ بسے تھے
پھر يوں ہوا کہ جيسے دل بھی تھا آبلہ سا
اب سچ کہيں تو يارو ہم کو خبر نہيں تھی
بن جائے گا قيامت اک واقع ذرا سا
تيور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا ليکن لگتا تھا آشنا سا
ہم دشت تھے کہ دريا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہيں تھا پياسا
ہم نے بھی اُس کو ديکھا کل شام اتفاقا
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا

چراغِ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے

چراغِ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ! بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ! بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمہاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ! بڑا اندھیرا ہے
فرازِ عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارا
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے
بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری
مجھے یقین دلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
جسے زبانِ خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ! بڑا اندھیرا ہے
بنامِ زہرہ جبینانِ خطۂ فردوس
کسی کرن کو جگاؤ! بڑا اندھیرا ہے

تجھ بِن خراب و خستہ زبوں خوار ہو گئے

تجھ بِن خراب و خستہ زبوں خوار ہو گئے
کیا آرزو تھی ہم کو کہ بیمار ہو گئے
ہم نے بھی سیر کی تھی چمن کی پر اے نسیم!
اٹھتے ہی آشیاں سے گرفتار ہو گئے
وہ تو گلے لگا ہوا سوتا تھا خواب میں‌
بخت اپنے سو گئے کہ جو بیدار ہو گئے

اے تغیر زمانہ یہ عجب دل لگی ہے

اے تغیر زمانہ یہ عجب دل لگی ہے
نہ وقارِ دوستی ہے نہ مجالِ دشمنی ہے
یہی ظلمتیں چھنیں جو ترے سرخ آنچلوں میں
انہی ظلمتوں سے شاید مرے گھر میں روشنی ہے
مرے ساتھ تم بھی چلنا مرے ساتھ تم بھی آنا
ذرا غم کے راستوں میں بڑی تیز تیرگی ہے
یہ مشاہدہ نہیں ہے مرے درد کی صدا ہے
میرے داغِ دل لیے ہیں تری بزم جب سجی ہے
غمِ زندگی کہاں ہے ابھی وحشتوں سے فرصت
ترے ناز اٹھا ہی لیں گے ابھی زندگی پڑی ہے
ترے خشک گیسوؤں میں مری آرزو ہے پنہاں
ترے شوخ بازوؤں میں مری داستاں رچی ہے
جسے اپنا یار کہنا اسے چھوڑنا بھنور میں!
یہ حدیثِ دلبراں ہے یہ کمالِ دلبری ہے
وہ گزر گیا ہے ساغر کوئی قافلہ چمن سے
کہیں آگ جل رہی ہے کہیں آگ بجھ گئی ہے

زخمِ دل پربہار دیکھا ہے

زخمِ دل پربہار دیکھا ہے
کیا عجب لالہ زار دیکھا ہے
جن کے دامن میں‌کچھ نہیں ہوتا
ان کے سینوں میں پیار دیکھا ہے
خاک اڑتی ہے تیری گلیوں میں‌
زندگی کا وقار دیکھا ہے
تشنگی ہے صدف کے ہونٹوں پر
گل کا سینہ فگار دیکھا ہے
ساقیا! اہتمامِ بادہ کر
وقت کو سوگوار دیکھا ہے
جذبۂ غم کی خیر ہو ساغر
حسرتوں پر نکھار دیکھا ہے

کب یاروں کو تسلیم نہیں ، کب کوئی عدو انکاری ہے

کب یاروں کو تسلیم نہیں ، کب کوئی عدو انکاری ہے
اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا جاں واری ہے
جب ساز سلاسل بجتے تھے ، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے ، یہ رسم ابھی تک جاری ہے
کچھ اہلِ ستم ، کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے
جب پرچمِ جاں لیکر نکلے ہم خاک نشیں مقتل مقتل
اُس وقت سے لے کر آج تلک جلاد پہ ہیبت جاری ہے
زخموں سے بدن گلزار سہی پر ان کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
کس زعم میں‌ تھے اپنے دشمن شاید یہ انہیں معلوم نہیں
یہ خاکِ وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے

اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو

اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
درد کی راتوں کو ڈھلنا ہے ہوا جیسی ہو
شوق کی آگ کو مدھم نہ کرو دیوانو
اپنی آواز کی لَو کم نہ کرو دیوانو
پھر سے سورج کو نکلنا ہے گھٹا جیسی ہو
اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
یہی مٹی تھی تمہیں جان سے بڑھ کر پیاری
آج اسی خاک سے ایک چشمۂ خون ہے جاری
راہ کتنی ہو کڑی رات ہو کتنی بھاری
ہم کو اس دشت میں چلنا ہے فنا جیسی ہو
اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
اپنے زخموں کو سجائے ہُوئے تاروں کی طرح
پرچمِ جاں کو لیے سینہ فگاروں کی طرح
اِس بیاباں سے گزرنا ہے بہاروں کی طرح
اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو
درد کی رات کو ڈھلنا ہے فضا جیسی ہو

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
منصور کو ہوا لب گویا پیام موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
میں انتہائے عشق ہوں، تو انتہائے حسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست
محشر میں عذرِ تازہ نہ پیدا کرے کوئی
چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں!
پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
کھل جائیں ، کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی

آرزوئے وصل جاناں میں سحر ہونے لگی

آرزوئے وصل جاناں میں سحر ہونے لگی
زندگی مانند شمع مختصر ہونے لگی
راز الفت کھل نہ جائے بات رہ جائے مری
بزم جاناں میں الہیٰ چشم تر ہونے لگی
اب شکیب دل کہاں حسرت ہی حسرت رہ گی
زندگی اک خواب کی صورت بسر ہونے لگی
یہ طلسم حسن ہے یا کہ مآل عشق ہے
اپنی ناکامی ہی اپنی راہ بر ہونے لگی
سن رہا ہوں آرہے ہیں وہ سر بالیں آج
میری آہ نارسا با اثرہونے لگی
ان سے وابستہ امیدیں جو بھی تھی وہ مٹ گئیں
اب طبیعت آپ اپنی چارہ گر ہونے لگی
وہ تبسم تھا کہ برق حسن کا اعجاز تھا
کائنات جان و دل زیر و زبر ہونے لگی
دل کی ڈھڑکن بڑھ گئی آنکھوں میں آنسو آگئے
غالباً میری طرف ان کی نظر ہونے گی
جب چلا مشتاق اپنا کارواں سوئے عدم
یاس ہم آغوش ہو کر ہم سفر ہونے لگی

اس طرح ہوں شہر کے لوگوں میں اب بکھرا ہوا

اس طرح ہوں شہر کے لوگوں میں اب بکھرا ہوا
اجنبی لوگوں پہ اپنے آپ کا دھوکا ہوا
آنکھ کے نم سے مجھے کچھ غم کا اندازہ ہوا
میں تو سمجھا تھا کہ یہ بادل بھی ہے برسا ہوا
وہ ترے ملنے کی ساعت خون میں رچ بس گئ
آج تک وہ پھول ہے گلدان میں رکھا ہوا
لوگ تنہائی سے ڈر کر جنگلوں میں آگئے
شہر کی گلیوں میں اب کہ ایسا سناٹا ہوا
وہ ترے آنے کا وعدہ وہ ترے ملنے کا شوق
ایک مدت سے ہے دل کے طاق پر رکھا ہوا
وقت نے دھندلا دئیے کیسے شناسائی کے رنگ
جس طرح یہ خواب ہو پہلے کبھی دیکھا ہوا