جو عشق میں نے کفر کی پہچان کر دیا

جو عشق میں نے کفر کی پہچان کر دیا
کافر نے اس کو بھی مرا ایمان کر دیا
حیرت نہیں ہوئی جو کسی عکس پر ہمیں
اس نے تو آئنے کا بھی حیران کر دیا
کچھ علم ہے کہ تم نے تو گیسو بکھیر کر
شیرازہء جہاں کو پریشان کر دیا
گو تم رہے خلاف سراغِ طبیعی کے
ہم نے تو یہ بھی وا درِ امکان کر دیا
اک قصرِ خواب ہم نے بنایا پھر آپ ہی
کیا جانے کس خیال سے ویران کر دیا
خوش ہو کہ کر دیا تجھے اے دل! سپردِ عشق
دیکھا تری نجات کا سامان کر دیا
آداب زندگی کے سکھا کر یہ کم ہے کیا
او جاہل آدمی تجھے انسان کر دیا

پتھر تھا مگر برف کے گالوں کی طرح تھا

پتھر تھا مگر برف کے گالوں کی طرح تھا
اک شخص اندھیروں میں اجالوں کی طرح تھا
خوابوں کی طرح تھا نہ خیالوں کی طرح تھا
وہ علم ریاضی کے سوالوں کی طرح تھا
الجھا ہوا ایسا کہ کبھی حل نہ ہو سکا
سلجھا ہوا ایسا کہ مثالوں کی طرح تھا
وہ مل تو گیا تھا مگر اپنا ہی مقدر
شطرنج کی الجھی ہوئی چالوں کی طرح تھا
وہ روح میں خوشبو کی طرح ہو گیا تحلیل
جو دور بہت چاند کے ہالوں کی طرح تھا

اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقف حال تھا

اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقف حال تھا
وہ جو اسکی صبح عروج تھی وہی میرا وقت زوال تھا
میرا درد کیسے وہ جانتا میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر پہ تھا اسے روکنا بھی محال تھا
کہاں‌جاوَ گے مجھے چھوڑ کے میں‌یہ پوچھ پوچھ کر تھک گیا
وہ جواب بھی نہ دے سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا
وہ جو اسکے سامنے آگیا وہی روشنی میں‌نہا گیا
عجب اسکا ہیبت حسن تھا عجب اسکا رنگ جمال تھا
دم واپسی یہ کیا ہوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بجھ گیا جو اپنی مثال آپ تھا
وہ ملا تو صدیوں‌بعد بھی میرے لب پر کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں‌کمال تھا
مجھے سے ملکر وہ رو لیا مجھے فقط وہ اتنا کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں‌زندگی وہ تو صرف وہم و خیال تھا

اب پر ہيں، نہ قفس، نہ صياد، نہ چمن

اب پر ہيں، نہ قفس، نہ صياد، نہ چمن
جتنے تھے زندگي کے سہارے چلے گۓ
جن پہ تھا ناز مجھ کو يہ ميرے دوست ہيں
دامن جھٹک کے ميرا وہ پيارے چلے گۓ
ہر شب کو آنسوؤں کے جلاتے رہے چراغ
ہم تيري بزمِ ياد نکھارے چلے گۓ
لتھڑي ہوئي تھي خون ميں ہر زلفِ آرزو
جوشِ جنوں ميں ہم مگر سنوارے چلے گۓ
ہر زخم دل ميں تيرا سنوارے چلے گۓ
ہم زندگي کا قرض اتارے چلے گۓ
سو بار موت کو بھي بنايا ہے ہمسفر
ہم زندگي کے نقش ابھارے چلے گۓ

کہاں ڈھونڈیں اسے کیسے بلائیں

کہاں ڈھونڈیں اسے کیسے بلائیں
یہاں اپنی بھی آوازیں نہ آئیں
پرانا چاند ڈوبا جا رہا ہے
وہ اب کوئی نیا جادو جگائیں
اب ایسا ہی زمانہ آ رہا ہے
عجب کیا وہ تو آئیں، ہم نہ آئیں
ہوا چلتی ہے پچھلے موسموں کی
صدا آتی ہے ان کو بھول جائیں
بس اب لے دے کے ہے ترکِ تعلق
یہ نسخہ بھی کوئی دن آزمائیں

احمد فراز کی لال مسجد پر لکھی جانے والی نظم

وہ عجیب صبحِ بہار تھی
کہ سحر سے نوحہ گری رہی
مری بستیاں تھیں دُھواں دُھواں
مرے گھر میں آگ بھری رہی
میرے راستے تھے لہو لہو
مرا قریہ قریہ فگار تھا
یہ کفِ ہوا پہ زمین تھی
وہ فللک کہ مشتِ غبار تھا
کئی آبشار سے جسم تھے
کہ جو قطرہ قطرہ پگھل گئے
کئی خوش جمال طلسم تھے
جنھیں گرد باد نگل گئے
کوئی خواب نوک سناں پہ تھا
کوئی آرزو تہِ سنگ تھی
کوئی پُھول آبلہ آبلہ
کوئی شاخ مرقدِ رنگ تھی
کئی لاپتہ میری لَعبتیں
جو کسی طرف کی نہ ہوسکیں
جو نہ آنے والوں کے ساتھ تھیں
جو نہ جانے والوں کو روسکیں
کہیں تار ساز سے کٹ گئی
کسی مطربہ کی رگ گُلُو
مئے آتشیں میں وہ زہر تھا
کہ تڑخ گئے قدح و سَبُو
کوئی نَے نواز تھا دم بخود
کہ نفس سے حدت جاں گئی
کوئی سر بہ زانو تھا باربُد
کہ صدائے دوست کہاں گئی
کہیں نغمگی میں وہ بَین تھے
کہ سماعتوں نے سُنے نہیں
کہیں گونجتے تھے وہ مرثیے
کہ انیس نے بھی کہے نہیں
یہ جو سنگ ریزوں کے ڈھیر ہیں
یہاں موتیوں کی دکان تھی
یہ جو سائبان دھوئیں کے ہیں
یہاں بادلوں کی اڑان تھی
جہاں روشنی ہے کھنڈر کھنڈر
یہاں قُمقُموں سے جوان تھے
جہاں چیونٹیاں ہوئیں خیمہ زن
یہاں جگنوؤں کے مکان تھے
کہیں آبگینہ خیال کا
کہ جو کرب ضبط سے چُور تھا
کہیں آئینہ کسی یاد کا
کہ جو عکسِ یار سے دور تھا
مرے بسملوں کی قناعتیں
جو بڑھائیں ظلم کے حوصلے
مرے آہوؤں کا چَکیدہ خوں
جو شکاریوں کو سراغ دے
مری عدل گاہوں کی مصلحت
مرے قاتلوں کی وکیل ہے
مرے خانقاہوں کی منزلت
مری بزدلی کی دلیل ہے
مرے اہل حرف و سخن سرا
جو گداگروں میں بدل گئے
مرے ہم صفیر تھے حیلہ جُو
کسی اور سمت نکل گئے
کئی فاختاؤں کی چال میں
مجھے کرگسوں کا چلن لگا
کئی چاند بھی تھے سیاہ رُو
کئی سورجوں کو گہن لگا
کوئی تاجرِ حسب و نسب
کوئی دیں فروشِ قدیم ہے
یہاں کفش بر بھی امام ہیں
یہاں نعت خواں بھی کلیم ہے
کوئی فکر مند کُلاہ کا
کوئی دعوٰی دار قبا کا ہے
وہی اہل دل بھی ہیں زیبِ تن
جو لباس اہلِ رَیا کا ہے
مرے پاسباں، مرے نقب زن
مرا مُلک مِلکِ یتیم ہے
میرا دیس میرِ سپاہ کا
میرا شہر مال غنیم ہے
جو روش ہے صاحبِ تخت کی
سو مصاحبوں کا طریق ہے
یہاں کوتوال بھی دُزد شب
یہاں شیخ دیں بھی فریق ہے
یہاں سب کے نِرخ جدا جدا
اسے مول لو اسے تول دو
جو طلب کرے کوئی خوں بہا
تو دہن خزانے کے کھول دو
وہ جو سرکشی کا ہو مرتکب
اسے قُمچیوں سے زَبُوں کرو
جہاں خلقِ شہر ہو مشتعل
اسے گولیوں سے نگوں کرو
مگر ایسے ایسے غنی بھی تھے
اسی قحط زارِ دمشق میں
جنھیں کوئے یار عزیز تھا
جو کھڑے تھے مقتلِ عشق میں
کوئی بانکپن میں تھا کوہکن
تو جنوں میں قیس سا تھا کوئی
جو صراحیاں لئے جسم کی
مئے ناب خوں سے بھری ہوئی
تھے صدا بلب کہ پیو پیو
یہ سبیل اہل وفا کی ہے
یہ نشید نوشِ بدن کرو
یہ کشید تاکِ وفا کی ہے
کوئی تشنہ لب ہی نہ تھا یہاں
جو پکارتا کہ اِدھر اِدھر
سبھی مفت بر تھے تماشہ بیں
کوئی بزم میں کوئی بام پر
سبھی بے حسی کے خمار میں
سبھی اپنے حال میں مست تھے
سبھی راہروانِ رہِ عدم
مگر اپنے زعم میں ہست تھے
سو لہو کے جام انڈیل کر
مرے جانفروش چلے گئے
وہ سکوُت تھا سرِ مے کدہ
کہ وہ خم بدوش چلے گئے
کوئی محبسوں میں رَسَن بہ پا
کوئی مقتلوں میں دریدہ تن
نہ کسی کے ہاتھ میں شاخ نَے
نہ کسی کے لب پ گُلِ سخن
اسی عرصہء شب تار میں
یونہی ایک عمر گزر گئی
کبھی روز وصل بھی دیکھتے
یہ جو آرزو تھی وہ مرگئی
یہاں روز حشر بپا ہوئے
پہ کوئی بھی روز جزا نہیں
یہاں زندگی بھی عذاب ہے
یہاں موت بھی شفا نہیں