ہم سے کیا پوچھتے ہو ہجر میں کیا کرتے ہیں

ہم سے کیا پوچھتے ہو ہجر میں کیا کرتے ہیں

تیرے لوٹ آنے کی دن رات  دعا کرتے ہیں

اب کوئی ہونٹ نہیں ان کو چرانے آتے

میری آنکھوں میں اگر اشک ہوا کرتے ہیں

تیری تو جانے ،پر اے جان تمنا ہم تو

سانس کے ساتھ تجھے یاد کیا کرتے ہیں  

کبھی یادوں میں تجھے بانہوں میں بھر لیتے ہیں

کبھی خوابوں میں تجھے چوم لیا کرتے ہیں

تیری تصویر لگا لیتے ہیں ہم سینے سے

پھر ترے خط سے تری بات کیا کرتے ہیں

گر تجھے چھوڑنے کی سوچ بھی آئے دل میں

ہم تو خود کو بھی وہیں چھوڑ دیا کرتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں