اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
تُم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تُو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
کس کو ہے ذوقِ تلخ کامی لیکن
جنگ بِن کچھ مزا نہیں ہوتا
نارسائی سے دم رُکے تو رُکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا
تُم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
چارہء دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
کیوں سُنے عرضِ مضطرب مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں