اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقف حال تھا

اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقف حال تھا
وہ جو اسکی صبح عروج تھی وہی میرا وقت زوال تھا
میرا درد کیسے وہ جانتا میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر پہ تھا اسے روکنا بھی محال تھا
کہاں‌جاوَ گے مجھے چھوڑ کے میں‌یہ پوچھ پوچھ کر تھک گیا
وہ جواب بھی نہ دے سکا وہ تو خود سراپا سوال تھا
وہ جو اسکے سامنے آگیا وہی روشنی میں‌نہا گیا
عجب اسکا ہیبت حسن تھا عجب اسکا رنگ جمال تھا
دم واپسی یہ کیا ہوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے بجھ گیا جو اپنی مثال آپ تھا
وہ ملا تو صدیوں‌بعد بھی میرے لب پر کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں‌کمال تھا
مجھے سے ملکر وہ رو لیا مجھے فقط وہ اتنا کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں‌زندگی وہ تو صرف وہم و خیال تھا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں