جب ہجر کی آگ جلاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں

جب ہجر کی آگ جلاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
آنکھوں میں راکھ سجاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
موسم کے رنگ بدلتے ہیں لہرا کر جھونکے آتے ہیں
شاخوں سے بور اڑاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
یادوں کی گرم ہواؤں سے آنکھوں کی کلیاں جلتی ہیں
جب آنسو درد بہاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
بے درد ہوائیں سہ سہ کر سورج کے ڈھلتے سائیوں میں
جب پنچھی لوٹ کے آتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب لوگ جہاں کے قصوں میں دم بھر کا موقعہ ملتے ہی
لفظوں کے تیر چلاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
یہ عشق محبت کچھ بھی نہیں فرصت کی کارستانی ہے
جب لوگ مجھے سمجھاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب کالے بادل گھر آئیں اور بارش زور سے ہوتی ہو
دروازے شور مچاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب آنگن میں خاموشی اپنے ہونٹ پہ انگلی رکھے ہو
سناٹے جب در آتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب سرد ہوا کا بستر ہو اور یاد سے اس کی لپٹے ہوں
تب نغمے سے لہراتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں
جب اوس کے قطرے پھولوں پر کچھ موتی سے بن جاتے ہیں
تب ہم بھی اشک بہاتے ہیں کچھ لوگ بہت یاد آتے ہیں

1 تبصرہ: