ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں

ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں

مگر یہ لوگ پاگل ہو گۓ ہیں

بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم

وہ گھر سنسان جنگل ہو گۓ ہیں

یہاں تک بڑھ گۓ آلامِ ہستی

کہ دل کے حوصلے شل ہو گۓ ہیں

کہاں تک لائے  ناتواں دل

کہ صدمے اب مسلسل ہو گۓ ہیں

انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ

یہاں جو حادثے کل ہو گۓ ہیں

جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر

وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گۓ ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں