کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے

کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے
سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کسی کی
اگرچہ گفتگو مبہم نہیں ہے
سلگتا کیوں نہیں تاریک جنگل
طلب کی لو اگر مدھم نہیں ہے
یہ بستی ہے ستم پروردگاں کی
یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے
کنارا دوسرا دریا کا جیسے
وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے
دلوں کی روشنی بجھنے نہ دینا
وجودِ تیرگی محکم نہیں ہے
میں تم کو چاہ کر پچھتا رہا ہوں
کوئی اس زخم کا مرہم نہیں ہے
جو کوئی سن سکے امجد تو دنیا
بجز اک باز گشتِ غم نہیں ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں