بعد مُدت اُسے دیکھا، لوگو

بعد مُدت اُسے دیکھا، لوگو

وہ ذرا بھی نہیں بدلا ، لوگو

خُوش نہ تھا مُجھ سے بچھڑ کر وہ بھی

اُس کے چہرے پہ لکھا تھا، لوگو

اُس کی آنکھیں بھی کہے دیتی تھیں

رات بھر وہ بھی نہ سویا ، لوگو

اجنبی بن کے جو گزرا ہے ابھی

تھا کِسی وقت میں اپنا ، لوگو

دوست تو خیر کوئی کس کا ہے

اُس نے دشمن بھی نہ سمجھا ، لوگو

رات وہ درد مرے دل میں اُٹھا

صبح تک چین نہ آیا ، لوگو

پیاس صحراؤں کی پھر تیز ہُوئی

اَبر پھر ٹوٹ کے برسا ، لوگو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں