عشق میں جیت ہوئی یا مات

عشق میں جیت ہوئی یا مات

آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات

یوں آیا وہ جانِ بہار

جیسے جگ میں پھیلے بات

رنگ کھُلے صحرا کی دھوپ

زلف گھنے جنگل کی رات

کچھ نہ کہا اور کچھ نہ سُنا

دل میں رہ گئی دل کی بات

یار کی نگری کوسوں دور

کیسے کٹے گی بھاری رات

بستی والوں سے چھپ کر

رو لیتے ہیں پچھلی رات

سنّاٹوں میں سنتے ہیں

سُنی سُنائی کوئی بات

پھر جاڑے کی رت آئی

چھوٹا دن اور لمبی رات 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں