سفرِ منزلِ شب یاد نہیں

سفرِ منزلِ شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں
دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں
وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
اک صورت تھی عجب یاد نہیں
ایسا الجھا ہوں غمِ دنیا میں
ایک بھی خوابِ طرب یاد نہیں
بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد ائیں بھی تو سب یاد نہیں
یہ حقیقت ھے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے کہ اب یاد نہیں
یاد ھے سیرِ چراغاں ناصر
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں