وہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں

وہ دلنواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں
تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
میرے لیے کوئی شایانِ التماس نہیں
تیرے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اٹھتا ہے
میرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں
کبھی کبھی جو تیری قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں
گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ دل
سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں
مجھے یہ ڈر ہے تیری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت میری اداس نہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں