کیا دن مجھے عشق نے دکھائے

کیا دن مجھے عشق نے دکھائے

اِک بار جو آئے پھر نہ آئے

اُس پیکرِ ناز کا فسانہ

دل ہوش میں آئے تو سُنائے

وہ روحِ خیال و جانِ مضموں

دل اس کو کہاں سے ڈھونڈھ لائے

آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر

عارض کہ شراب تھتھرائے

مہکی ہوئی سانس نرم گفتار

ہر ایک روش پہ گل کلکھلائے

راہوں پہ ادا ادا سے رقصاں

آنچل میں حیا سے منہ چھپائے

اڑتی ہوئی زلف یوں پریشاں

جیسے کوئی راہ بھول جائے

کچھ پھول برس پڑے زمیں پر

کچھ گیت ہوا میں لہلہائے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں