سایہ کہیں نہ کوئی شجر مجھ کو اس سے کیا

سایہ کہیں نہ کوئی شجر مجھ کو اس سے کیا
بےچین ہے یہ دھوپ اگر مجھ کو اس سے کیا
وہ جو حصارِ ذات سے نکلا نہیں کبھی
کر لے وہ آسماں کا سفر مجھ کو اس سے کیا
وہ سر مرا اتار کر قامت میں مجھ سے بڑھ گیا
دیکھے وہ ایسے خواب اگر مجھ کو اس سے کیا
پہلی سی بات جذبِ محبت میں اب کہاں
وہ پھیر لے جو اپنی نظر مجھ کو اس سے کیا
آیا میرے قریب تو منظر بدل گیا
رکھتا ہے بے وفا یہ ہنر مجھ کو اس سے کیا
میں بھی بدل کے دیکھ لوں اپنا مکاں کہیں
بدلے اگر وہ راہ گزر مجھ کو اس سے کیا
پامال منزلوں کو میں کرتا رہا شکیل
پھر بھی ملا نہ اذنِ سفر مجھ کو اس سے کیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں