دِل کو حصارِ رنج و اَلم سے نکال بھی

دِل کو حصارِ رنج و اَلم سے نکال بھی
کب سے بِکھر رہا ہوں مجھے اب سنبھال بھی
آہٹ سی اُس حسین کی ہر سُو تھی‘ وہ نہ تھا
ہم کو خوشی کے ساتھ رہا اِک ملال بھی
سب اپنی اپنی موجِ فنا سے ہیں بے خبر
میرا کمالِ شاعری‘ تیرا جمال بھی
حسنِ اَزل کی جیسے نہیں دُوسری مثال
ویسا ہی بے نظیر ہے اُس کا خیال بھی!
مت پوچھ کیسے مرحلے آنکھوں کو پیش تھے
تھا چودھویں کا چاند بھی‘ وہ خوش جمال بھی
جانے وہ دن تھے کون سے اور کون سا تھا وقت!
گڈ مڈ سے اب تو ہونے لگے ماہ و سال بھی!
اِک چشمِ التفات کی پیہم تلاش میں
ہم بھی اُلجھتے جاتے ہیں‘ لمحوں کا جال بھی!
دنیا کے غم ہی اپنے لئے کم نہ تھے کہ اور
دل نے لگا لیا ہے یہ تازہ وبال بھی!
اِک سرسری نگاہ تھی‘ اِک بے نیاز چُپ
میں بھی تھا اُس کے سامنے‘ میرا سوال بھی!
آتے دنوں کی آنکھ سے دیکھیں تو یہ کھُلے
سب کچھ فنا کا رزق ہے ماضی بھی حال بھی!
تم دیکھتے تو ایک تماشے سے کم نہ تھا
آشفتگانِ دشتِ محبت کا حال بھی!
اُس کی نگاہِ لُطف نہیں ہے‘ تو کچھ نہیں
امجد یہ سب کمال بھی‘ صاحبِ کمال بھی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں