ایک وعدہ ہے کِسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ایک وعدہ ہے کِسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ اِن تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے اُلٹ دیں اُنکے چہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جُھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
اب تو مدّت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو اُن کو طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا طلاتم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ نا خُدا ہوتا نہیں
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تو دل سے جُدا ہوتا نہیں
بار ہا دیکھا ہے ساغر رہگزارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں