یوں تو وہ شکل کھو گئی گردشِ ماہ و سال میں

یوں تو وہ شکل کھو گئی گردشِ ماہ و سال میں
پھول ہے اک کِھلا ہوا حاشیۂ خیال میں
اب بھی وہ روئے دلنشیں ، زرد سہی، حسیں تو ہے
جیسے جبینِ آفتاب، مرحلۂ زوال میں
اب بھی وہ میرے ہم سفر ہیں روشِ خیال پر
اب وہ نشہ ہے ہجر میں ، تھا جو کبھی وصال میں
اُن کے خرامِ ناز کو بوئے گُل و صبا کہا
ہم نے مثال دی مگر رنگ نہ تھا مثال میں
اہلِ ستم کے دل میں ہے کیا مرے کرب کا حساب
اُن کو خبر نہیں کہ میں مست ہوں اپنے حال میں
کیسا پہاڑ ہو گیا وقت گزارنا مجھے
زخم پہ جم گئی نظر خواہشِ اندمال میں
تو نے مرے خمیر میں کتنے تضاد رکھ دئیے
موت مری حیات میں ، نقص مرے کمال میں

1 تبصرہ: