وہ مستِ ناز جو گلشن میں آ نکلتی ہے

وہ مستِ ناز جو گلشن میں آ نکلتی ہے

کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے

الٰہی پھولوں میں وہ انتخاب مجھ کو کرے

کلی سے رشک گل آفتاب مجھ کو کرے

تجھے وہ شاخ سے توڑیں زہے نصیب ترے

تڑپتے رہ گئے گلزار میں رقیب ترے

اٹھا کے صدمۂ فرقت وصال تک پہنچا

تری حیات کا جوہر کمال تک پہنچا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں