ضمير مغرب ہے تاجرانہ، ضمير مشرق ہے راہبانہ

ضمير مغرب ہے تاجرانہ، ضمير مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ، يہاں بدلتا نہيں زمانہ
کنار دريا خضر نے مجھ سے کہا بہ انداز محرمانہ
سکندري ہو، قلندري ہو، يہ سب طريقے ہيں ساحرانہ
حريف اپنا سمجھ رہے ہيں مجھے خدايان خانقاہي
انھيں يہ ڈر ہے کہ ميرے نالوں سے شق نہ ہو سنگ آستانہ
غلام قوموں کے علم و عرفاں کي ہے يہي رمز آشکارا
زميں اگر تنگ ہے تو کيا ہے، فضائے گردوں ہے بے کرانہ
خبر نہيں کيا ہے نام اس کا، خدا فريبي کہ خود فريبي
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدير کا بہانہ
مري اسيري پہ شاخ گل نے يہ کہہ کے صياد کو رلايا
کہ ايسے پرسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پہ آشيانہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں