کبھی شعر و نغمہ بن کے، کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے

کبھی شعر و نغمہ بن کے، کبھی آنسوؤں میں ڈھل کے
وہ مجھے ملے تو لیکن، ملے صورتیں بدل کر
یہ وفا کی سخت راہیں، یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھ سے، مرے ساتھ ساتھ چل کے
وہی آنکھ بے بہا ہے جو غمِ جہاں میں روئے
وہی جام جامِ ہے جو بغیرِ فرق چھلکے
یہ چراغِ انجمن تو ہیں بس ایک شب کے مہماں
تُو جلا وہ شمع اے دل! جو بجھے کبھی نہ جل کے
نہ تو ہوش سے تعارف، نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہم تری بزم سے نکل کے
کوئی اے خمار ان کو مرے شعر نذر کر دے
جو مخالفینِ مخلص نہیں معترف غزل کے

2 تبصرے: