کتنی آوازیں ہیں جن سے میں نہیں بچ سکتا

کتنی آوازیں ہیں جن سے میں نہیں بچ سکتا
ایسے لگتا ہے کہ محفوظ ہے سب کچھ سر میں
کچھ بھی سوچو وہ سماعت پہ گراں لگتا ہے
ہر گھڑی بنتا بگڑتا یہ مکاں لگتا ہے
سال خوردہ سا ہر اک جذبہ جواں لگتا ہے
ایک پتھر سا تہِ آب رواں لگتا ہے
جتنا ظاہر ہے وہ اتنا ہی نہاں لگتا ہے
اور پھر تیر سا لگتا ہے کلیجے میں میرے
اس کا ابرو مجھے اب تک بھی کماں لگتا ہے
ایک پتلی پہ سمٹتا یہ جہاں لگتا ہے
سعد مانو کہ حقیقت نہیں مر سکتی کبھی
اس حقیقت کے قریں میرا گماں لگتا ہے
کوئی بارش سی اتر آتی ہے سینے پہ میرے
بھر جدائی کا وہی پہلا سماں لگتا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں