تھی جس سے روشنی ، وہ دیا بھی نہیں رہا

تھی جس سے روشنی ، وہ دیا بھی نہیں رہا
اب دل کو اعتبارِ ہوا بھی نہیں رہا
تو بجھ گیا تو ہم بھی فروزاں نہ رہ سکے
تو کھو گیا تو اپنا پتہ بھی نہیں رہا
کچھ ہم بھی ترے بعد زمانے سے کٹ گئے
کچھ ربط و ضبط خدا سے بھی نہیں رہا
گویا ہمارے حق میں ستم در ستم ہوا
حرفِ دعا بھی ، دستِ دعا بھی نہیں رہا
کیا شاعری کریں کہ ترے بعد شہر میں
لطف کلام ، کیفِ نوا بھی نہیں رہا

1 تبصرہ: