تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے

تو اس قدر مجھے اپنے قریب لگتا ہے

تجھے الگ سے جو سوچوں عجیب لگتا ہے

جسے نہ حسن سے مطلب نہ عشق سے سروکار

وہ شخص مجھ کو بہت بدنصیب لگتا ہے

حدودِ ذات سے باہر نکل کے دیکھ زرا

نہ کوئی غیر نہ کوئی رقیب لگتا ہے

یہ دوستی یہ مراسم یہ چاہتیں یہ خلوص

کبھی کبھی یہ سب کچھ عجیب لگتا ہے

اُفق پہ دور چمکتا ہوا کوئی تارا

مجھے چراغِ دیارِ حبیب لگتا ہے

نہ جانے کب کوئی طوفان آئے گا یارو

بلند موج سے ساحل قریب لگتا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں