ہم انہیں، وہ ہمیں بھلا بیٹھے

ہم انہیں، وہ ہمیں بھلا بیٹھے
دو گنہگار زہر کھا بیٹھے
حالِ غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے
تیر مارے تھے، تیر کھا بیٹھے
آندھیو! جاؤ اب کرو آرام
ہم کود اپنا دیا بجھا بیٹھے
جی تو ہلکا ہوا مگر یارو
رو کے ہم لطفِ غم گنوا بیٹھے
بے سہاروں کا حوصلہ ہی کیا
گھر میں گھبرائے در پہ آ بیٹھے
جب سے بچھڑے وہ مسکرائے نہ ہم
سب نے چھیڑا تو لب ہلا بیٹھے
ہم رہے مبتلائے دیر و حرم
وہ دبے پاؤں دل میں آ بیٹھے
اٹھ کے اک بے وفا نے دے دی جان
رہ گئے سارے با وفا بیٹھے
حشر کا دن ابھی ہے دُور خمار
آپ کیوں زاہدوں میں جا بیٹھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں