تری خوشی سے اگر غم ميں بھی خوشی نہ ہوئی

تری خوشی سے اگر غم ميں بھی خوشی نہ ہوئی
وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی
کوئی بڑھے نہ بڑھے ہم تو جان ديتے ہيں
پھر ايسی چشم توجہ کوئی ہوئی نہ ہوئی
فسردہ خاطری عشق اے معاذ اللہ
خيال يار سے بھی کچھ شگفتگی نہ ہوئی
تری نگاہ کرم کو بھی آزما ديکھا
اذيتوں ميں نہ ہوئی تھی کچھ کمی نہ ہوئی
صبا يہ ان سے ہما را پيام کہہ دينا
گئے ہو جب سے يہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی
ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی
خيال يار سلامت تجھے خدا رکھے
ترے بغير کبھی گھر ميں روشنی نہ ہوئی
گئے تھے ہم بھی جگر جلوہ گاہ جاناں ميں
وہ پوچھتے ہی رہے ہم سے بات بھی نہ ہوئی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں