چراغِ راہ بُجھا کیا، کہ رہنما بھی گیا

چراغِ راہ بُجھا کیا، کہ رہنما بھی گیا

ہَوا کے ساتھ مسافر کا نقشِ پا بھی گیا

میں پُھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہُوئی

وہ شخص آکے مرے شہر سے چلا بھی گیا

بہت عزیز سہی اُس کو میری دلداری

مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دُکھا بھی گیا

اب اُن دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں

وہ تاک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا

سب آئے میری عیادت کو، وہ بھی آیا

جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا

یہ غربتیں مری آنکھوں میں کیسی اُتری ہیں

کہ خواب بھی مرے رُخصت ہیں، رتجگا بھی گیا

1 تبصرہ: