یارب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے

یارب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے

زخمِ ہُنر کو حوصلہ لب کشائی دے

لہجے کو جُوئے آب کی وہ نے نوائی دے

دُنیا کو حرف حرف کا بہنا سنائی دے

رگ رگ میں اُس کا لمس اُترتا دکھائی دے

جو کیفیت بھی جسم کو دے، انتہائی دے

شہرِ سخن سے رُوح کو وہ آشنائی دے

آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے

تخیئلِ ماہتاب ہو، اظہارِ آئینہ

آنکھوں کو لفظ لفظ کا چہرہ دکھائی دے

دل کو لہو کروں تو کوئی نقش بن سکے

تو مجھ کو کربِ ذات کی سچی کمائی دے

دُکھ کے سفر میں منزلِ نایافت کُچھ نہ ہو

زخمِ جگر سے زخمِ ہُنر تک رسائی دے

میں عشق کائنات میں زنجیر ہوسکوں

مجھ کو حصارِ ذات کے شہر سے رہائی دے

پہروں کی تشنگی پہ بھی ثابت قدم رہوں

دشتِ بلا میں، رُوح مجھے کربلائی دے

1 تبصرہ: