زندگی سے نظر ملاؤ کبھی

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی

ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

ترکِ اُلفت کے بعد اُمید وفا

ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی!

اب جفا کی صراحتیں  بیکار

بات سے بھرسکا ہے گھاؤ کبھی

شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں !

ہاتھ سے رُک سکاہے بہاؤ کبھی

اندھے  ذہنوں سے سوچنے والو

حرف میں روشنی ملاؤ کبھی

بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں

آنسوؤں سے بُجھا الاؤ کبھی

اپنے اسپین کی خبر رکھنا

کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی!

2 تبصرے:

  1. یہ زندگی بڑی عجیب سی، کبھی گلزار سی کبھی بیزار سی
    کبھی خوشی ہمارے ساتھ ساتھ ،ہے کبھی غموں کی غبار سی

    جواب دیںحذف کریں
  2. وقت انسان کو سکھا دیتا ہے عجب عجب چیزیں
    پھر کیا نصیب ، کیا مقدر، کیا ہاتھ کی لکیریں

    جواب دیںحذف کریں