وہ عکسِ موجۂ گل تھا، چمن چمن میں رہا

وہ عکسِ موجۂ گل تھا، چمن چمن میں رہا

وہ رنگ رنگ میں اُترا، کرن کرن میں رہا

وہ نام حاصلِ فن ہو کے میرے فن میں رہا

کہ رُوح بن کے مری سوچ کے بدن میں رہا

سکونِ دل کے لیے میں کہاں کہاں نہ گئی

مگر یہ دل، کہ سدا اُس کی انجمن میں رہا

وہ شہر والوں کے آگے کہیں مہذب تھا

وہ ایک شخص جو شہروں سے دُور بَن میں رہا

چراغ بجھتے رہے اور خواب جلتے رہے

عجیب طرز کا موسم مرے وطن میں رہا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں