نیند تو خواب ہے اور ہجر کی شب خواب کہاں

نیند تو خواب ہے اور ہجر کی شب خواب کہاں

اِس اماوس کی گھنی رات میں مہتاب کہاں

رنج سہنے کی مرے دل میں تب و تاب کہاں

اور یہ بھی ہے کہ پہلے سے وہ اعصاب کہاں

مَیں بھنور سے تو نکل آئی، اور اب سوچتی ہوں

موجِ ساحل نے کیا ہے مجھے غرقاب کہاں

مَیں نے سونپی تھی تجھے آخری پُونجی اپنی

چھوڑ آیا ہے مری ناؤ تہہِ آب کہاں

ہے رواں آگ کا دریا مری شریانوں میں

موت کے بعد بھی ہو پائے گا پایاب کہاں

بند باندھا ہے سَروں کا مرے دہقانوں نے

اب مری فصل کو لے جائے گا سیلاب کہاں

4 تبصرے: