کیسی بے چہرہ رُتیں آئیں وطن میں اب کے

کیسی بے چہرہ رُتیں آئیں وطن میں اب کے

پُھول آنگن میں کِھلے ہیں نہ چمن میں اب کے

برف کے ہاتھ ہی، ہاتھ آئیں گے، اے موجِ ہوا

حِدتیں مجھ میں، نہ خوشبو  بدن میں، اب کے

دُھوپ کے ہاتھ میں جس طرح کُھلے خنجر ہوں

کُھردرے لہجے کی نوکیں ہیں کرن میں اب کے

دل اُسے چاہے جسے عقل نہیں چاہتی ہے

خانہ جنگی ہے عجب ذہن و بدن میں اب کے

جی یہ چاہے، کوئی پھر توڑ کے رکھ دے مجھ کو

لذتیں ایسی کہاں ہوں گی تھکن میں اب کے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں