ہم کو مٹا سکے، یہ زمانے میں دم نہیں

ہم کو مٹا سکے، یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے، زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں، بے کار غم نہیں
توفیق دے خُدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوۂ اہلِ ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا ، یہی احسان کم نہیں
یارب ہجومِ درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی میری آنکھیں بھی نم نہیں
زاہد کچھ اور ہو نہ ہو مے خانے میں مگر
کیا کم یہ ہے کہ شکوۂ  دیر و حرم نہیں
مرگِ جگر پر کیوں تیری آنکھیں ہیں اشکبار
اک سانحہ صحیح مگر اتنا بھی اہم نہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں