دن ٹھہر جائے ، مگر رات کٹے

دن ٹھہر جائے ، مگر رات کٹے

کوئی صورت ہو کہ برسات کٹے

خوشبوئیں مجھ کو قلم کرتی گئیں

شاخ در شاخ مرے ہات کٹے

موجۂ گُل ہے کہ تلوار کوئی

درمیاں سے ہی مناجات کٹے

حرف کیوں اپنے گنوائیں جا کر

بات سے پہلے جہاں بات کٹے

چاند! آ مِل کے منائیں یہ شب

آج کی رات ترے سات کٹے

پُورے انسانوں میں گُھس آئے ہیں

سر کٹے ، جسم کٹے ، ذات کٹے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں