ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اس کا تھا

ہر ایک چہرے پہ دل کو گُمان اس کا تھا
بسا نہ کوئی یہ خالی مکان اس کا تھا
میں بے جہت ہی رہا اور بے مقام سا وہ
ستارہ میرا سمندر نشان اس کا تھا
میں اُس طلسم سے باہر کہاں تلک جاتا
فضا کھلی تھی مگر آسمان اس کا تھا
سلیقہ عشق میں جاں اپنی پیش کرنے کا
جنہیں بھی آیا تھا ان کو ہی دھیان اس کا تھا
پھر اس کے بعد کوئی بات بھی ضروری نہ تھی
مرے خلاف سہی وہ بیان اس کا تھا
ہوا نے اب کے جلائے چراغ رستے میں
کہ میری راہ میں عادل مکان اس کا تھا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں