تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سےہم

تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں‌ بے دلی سے ہم
مایوسئ مآلِ محبت نہ پوچھئے
اپنوں سے پیش آئے ہیں ‌بیگانگی سے ہم
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گودب گئے ہیں بارِ غمِ زندگی سے ہم
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم
اللہ رے فریبِ مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں