اب کیسی پردہ داری ، خبر عام ہو چکی

اب کیسی پردہ داری ، خبر عام ہو چکی

ماں کی ردا تو ، دن ہُوئے نیلام ہو چکی

اب آسماں سے چادرِ شب آئے بھی تو کیا

بے چاری زمین پہ الزام ہو چکی

اُجڑے ہُوئے دیارپہ پھر کیوں نگاہ ہے

اس کشت پر تو بارشِ اکرام ہو چکی

سُورج بھی اُس کو ڈھونڈ کے واپس چلا گیا

اب ہم بھی گھر کو لوٹ چلیں ، شام ہو چکی

شملے سنبھالتے ہی رہے مصلحت پسند

ہونا تھا جس کو پیار میں بدنام ہو چکی

کوہِ ندا سے بھی سخن اُترے اگر تو کیا

نا سامعوں میں حرمتِ الہام ہو چکی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں