خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

پیش کرتی ہے عجب حسن کا معیار غزل


پیش کرتی ہے عجب حسن کا معیار غزل
لے اُڑی ہے ترا لہجہ، تری گُفتار غزل
دو دھڑکتے ہوئے دل یوں دھڑک اُٹھّے اک ساتھ
جیسے مِل جُل کے بنا دیتے ہیں اشعار غزل
کوئی شیریں سخن آیا بھی، گیا بھی لیکن
گنگناتے ہیں ابھی تک در و دیوار غزل
میں تو آیا تھا یہاں چَین کی سانسیں لینے
چھیڑ دی کس نے سرِ دامنِ کہسار غزل
مریمِ شعر پہ ہیں اہلِ ہوَس کی نظریں
فتنۂ وقت سے ہے بر سرِ پیکار غزل
تو نے خط میں مجھے "سرکارِ غزل" لکھا ہے
تجھ پہ سو بار نچھاور مری سرکار، غزل
گھر کے بھیدی نے تو ڈھائی ہے قیامت شبنم
کر گئی ہے مجھے رسوا سرِ بازار غزل