ہمتِ التجا نہیں باقی

ہمتِ التجا نہیں باقی

ضبط کا حوصلہ نہیں باقی

اک تری دید چھن گئی مجھ سے

ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی

اپنے مشقِ ستم سے ہاتھ نہ کھینچ

میں نہیں یا وفا نہیں باقی

ترے چشمِ عالم نواز کی خیر

دل میں کوئی گلہ نہیں باقی

ہو چکا ختم عہدِ ہجر و وصال

زندگی میں مزا نہیں باقی

کٹھن ہے راہ گزر تھوڑي دور ساتھ چلو

کٹھن ہے راہ گزر تھوڑي دور ساتھ چلو
بہت کڑا ہے سفر تھوڑي دور ساتھ چلو

تمام عمر کہاں کوئي ساتھ ديتا ہے
يہ جانتا ہوں مگر تھوڑي دور ساتھ چلو

نشے ميں چور ہوں ميں بھي تمہيں ہوش نہيں
بڑا مزہ ہو اگر تھوڑي دور ساتھ چلو

يہ ايک شب کي ملاقات بھي غنيمت ہے
کسے ہےکل کي خبر تھوڑي دور ساتھ چلو

ابھي تو جاگ رہے ہيں چراغ راہوں کے
ابھي ہے دور سحر تھوڑي دور ساتھ چلو

طواف منزل جاناں ہميں بھي کرنا ہے
فراز تم بھي اگر تھوڑي دور ساتھ چلو

لہرائے سدا آنکھ میں پیارے تیرا آنچل

لہرائے سدا آنکھ میں پیارے تیرا آنچل
جھومر ہے تیرا چاند ستارے تیرا آنچل
اَب تک میری یادوں میں ہے رنگوں کا تلاطَم
دیکھا تھا کبھی جھیل کنارے تیرا آنچل
لپٹے کبھی شانوں سے کبھی زُلف سے اُلجھے
کیوں ڈُھونڈھتا رہتا ہے سہارے تیرا آنچل
مہکیں تیری خوشبو سے دہکتی ہوئی سانسیں
جب تیز ہوا خود سے اتارے تیرا آنچل
آنچل میں رَچے رنگ نکھاریں تیری زلفیں
اُلجھی ہوُئی زُلفوں کو سنوارے تیرا آنچل
اس وقت ہے تتلی کی طرح دوشِ ہوَا پر
اس وقت کہاں بس میں ہمارے تیرا آنچل
کاجل تیرا بَہہ بَہہ کے رُلائے مجھے اَب بھی
رَہ رَہ کے مجھے اَب بھی پکارے تیرا آنچل

آجا کہ ابھی ضبط کا موسم نہیں گزرا

آجا کہ ابھی ضبط کا موسم نہیں گزرا
آجا کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ہے
خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی حدوں تک
اس شہر میں سب کچھ ہے بس اک تیری کمی ہے

تو نے نفرت سے جو دیکھا تو مجھے یاد آیا

تو نے نفرت سے جو دیکھا تو مجھے یاد آیا

کیسے رشتے تیری خاطر یونہی توڑ آیا ہوں

کتنے دھندلے ہیں یہ چہرے جنہیں اپنایا ہے

کتنی اُجلی تھیں وہ آنکھیں جنہیں چھوڑ آیا ہوں

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی
کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی
دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی
نفرتوں کے تیر کھا کر دوستوں کے شہر میں
ہم نے کس کس کو پکارا یہ کہانی پھر سہی
کیا بتائیں پیار کی بازی وفا کی راہ میں
کون جیتا کون ہارا یہ کہانی پھر سہی

وہ عِشق جو ہم سے رُوٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا

وہ عِشق جو ہم سے رُوٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں پھر سچا شعر سنائیں کیا
اِک ہِجر جو ہم کو لاحق ہے تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دِل میں اتار لیا پھر اس کے ناز اُٹھائیں کیا
پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خُود بھی کسی کے سوالی ہیں اس بات پہ ہم شرمائیں کیا
اِک آگ غمِ تنہائی کی جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا
ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے ہم صُورت گر کچھ چہروں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا

ایک وعدہ ہے کِسی کا جو وفا ہوتا نہیں

ایک وعدہ ہے کِسی کا جو وفا ہوتا نہیں
ورنہ اِن تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں
جی میں آتا ہے اُلٹ دیں اُنکے چہرے سے نقاب
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں
شمع جس کی آبرو پر جان دے دے جُھوم کر
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے فنا ہوتا نہیں
اب تو مدّت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے
اب تو اُن کو طُور پر بھی سامنا ہوتا نہیں
ہر شناور کو نہیں ملتا طلاتم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ نا خُدا ہوتا نہیں
ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں
ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھ کو خبر
ہائے یہ عالم کہ تو دل سے جُدا ہوتا نہیں
بار ہا دیکھا ہے ساغر رہگزارِ عشق میں
کارواں کے ساتھ اکثر رہنما ہوتا نہیں

دُکھ درد کی سوغات ہے دُنیا تیری کیا ہے

دُکھ درد کی سوغات ہے دُنیا تیری کیا ہے
اشکوں بھری برسات ہے دُنیا تیری کیا ہے
کچھ لوگ یہاں نورِ سحر ڈھونڈ رہے ہیں!
تاریک سی اِک رات ہے دُنیا تیری کیا ہے
تقدیر کے چہرے کی شکن دیکھ رہا ہوں
آئینہ حالات ہے دُنیا تیری کیا ہے
پابندِ مشیعت ہے تنفس بھی نظر بھی
اِک جذبئہ لمحات ہے دُنیا تیری کیا ہے
مجروح تقدس ہے تقدس کی حقیقت
رُودادِ خرابات ہے دُنیا تیری کیا ہے
ساغر میں چھلکتے ہیں سماوات کے اسرار
ساقی کی کرامات ہے دُنیا تیری کیا ہے

میرے چمن میں بہاروں کے پُھول مہکیں گے

میرے چمن میں بہاروں کے پُھول مہکیں گے
مجھے یقیں ہے شراروں کے پُھول مہکیں گے
کبھی تو دیدئہ نرگس میں روشنی ہو گی
کبھی تو اُجڑے دیاروں کے پُھول مہکیں گے
تمہاری زلفِ پریشاں کی آبرو کے لیے
کئی ادا سے چناروں کے پُھول مہکیں گے
چمک ہی جائے گی شبنم لہُو کی بوندوں سے
روش روش پہ ستاروں کے پُھول مہکیں گے
ہزاروں موجِ تمنّا صدف اُچھالے گی
تلاطموں سے کناروں کے پُھول مہکیں گے
یہ کہہ رہی ہیں فضائیں بہار کی ساغر
جِگر فروز اشاروں کے پُھول مہکیں گے

جب سے دیکھا پَری جمالوں کو

جب سے دیکھا پَری جمالوں کو
مَوت سی آ گئی خیالوں کو
دیکھ تشنہ لبی کی بات نہ کر
آگ لگ جائے گی پیالوں کو
پھر اُفق سے کِسی نے دیکھا ہے
مُسکرا کر خراب حالوں کو
فیض پہنچا ہے بارہا ساقی
تیرے مستوں سے اِن شوالوں کو
دونوں عالم پہ سرفرازی کا
ناز ہے تیرے پائمالوں کو
اس اندھیرروں کے عہد میں ساغر
کیا کرے گا کوئی اُجالوں کو

وہ جو ہم میں تُم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو ہم میں تُم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نِباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لُطف مجھ پہ تھے پیشتر، وہ کرم کہ تھا مِرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گِلے، شکائتیں، وہ مزے مزے کی حکائتیں
وہ ہر ایک بات پہ رُوٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے سب میں جو رُوبرو، تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیان شوق کا بَرملا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بُری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم کو تُم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سُنو ذکر ہے کئی سال کا، کہ کیا اِک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذِکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بگڑنا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کہ ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گِنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومن مُبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

یہ مری روح میں گونجتا کون ہے

یہ مری روح میں گونجتا کون ہے
بند گنبد میں مثلِ صدا کون ہے
کون سبزے کی صورت میں پامال ہے
سرو بن کر چمن میں کھڑ ا کون ہے
کس سے چھپ چھپ کے ملنے کو جاتی ہے تو
جنگلوں میں ، بتا اے صبا، کون ہے
پھول کھلنے کی کوشش سے اُکتا گئے
آنکھ بھر کر انہیں دیکھتا کون ہے
بے دلی سے کہاں ہاتھ آتے ہیں ہم
دل لگا کر ہمیں ڈھونڈتا کون ہے

ابروئے ابر سے کرتا ہے اشارہ مجھ کو

ابروئے ابر سے کرتا ہے اشارہ مجھ کو
جھلک اُس آنکھ کی دکھلا کے ستارہ مجھ کو
ہوں میں وہ شمع سرِ طاق جلا کر سرِ شام
بھول جاتا ہے مرا انجمن آرا مجھ کو
رائگاں وسعتِ ویراں میں یہ کھلتے ہوئے پھول
ان کو دیکھوں تو یہ دیتے ہیں سہارا مجھ کو
میری ہستی ہے فقط موجِ ہوا، نقشِ حباب
کوئی دم اور کریں آپ گوارا مجھ کو
دام پھیلاتی رہی سود و زیاں کی یہ بساط
ہاں مگر میرے جنوں نے نہیں ہارا مجھ کو
کچھ شب و روز و مہ و سال گزر کر مجھ پر
وقت نے تا بہ ابد خود پہ گزرا مجھ کو
موجِ بے تاب ہوں میں ، میرے عناصر ہیں کچھ اور
چاہئے صحبتِ ساحل سے کنارا مجھ کو
رزق سے میرے مرے دل کو ہے رنجش خورشید
آسمانوں سے زمینوں پہ اُتارا مجھ کو

یوں تو وہ شکل کھو گئی گردشِ ماہ و سال میں

یوں تو وہ شکل کھو گئی گردشِ ماہ و سال میں
پھول ہے اک کِھلا ہوا حاشیۂ خیال میں
اب بھی وہ روئے دلنشیں ، زرد سہی، حسیں تو ہے
جیسے جبینِ آفتاب، مرحلۂ زوال میں
اب بھی وہ میرے ہم سفر ہیں روشِ خیال پر
اب وہ نشہ ہے ہجر میں ، تھا جو کبھی وصال میں
اُن کے خرامِ ناز کو بوئے گُل و صبا کہا
ہم نے مثال دی مگر رنگ نہ تھا مثال میں
اہلِ ستم کے دل میں ہے کیا مرے کرب کا حساب
اُن کو خبر نہیں کہ میں مست ہوں اپنے حال میں
کیسا پہاڑ ہو گیا وقت گزارنا مجھے
زخم پہ جم گئی نظر خواہشِ اندمال میں
تو نے مرے خمیر میں کتنے تضاد رکھ دئیے
موت مری حیات میں ، نقص مرے کمال میں

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں
کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں
وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں
اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے
میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں
وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں
اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر
ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں
اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی
خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں
اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی
تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں
ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ
سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں
تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر
میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی
اک ترے وصل کی گھڑی ہو گی
دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
کوئی برسات کی جھڑی ہو گی
کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پھول کی اک پنکھڑی ہو گی
زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہو گی
اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہو گی
کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کسی پھول کی اڑی ہو گی
التجا کا ملال کیا کیجئے
ان کے در پر کہیں پڑی ہو گی
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر
زندگی کی کوئی کڑی ہو گی

وہ مستِ ناز جو گلشن میں آ نکلتی ہے

وہ مستِ ناز جو گلشن میں آ نکلتی ہے

کلی کلی کی زباں سے دعا نکلتی ہے

الٰہی پھولوں میں وہ انتخاب مجھ کو کرے

کلی سے رشک گل آفتاب مجھ کو کرے

تجھے وہ شاخ سے توڑیں زہے نصیب ترے

تڑپتے رہ گئے گلزار میں رقیب ترے

اٹھا کے صدمۂ فرقت وصال تک پہنچا

تری حیات کا جوہر کمال تک پہنچا

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں

وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں

آدمی بے نظیر ہوتے ہیں

تیری محفل میں بیٹھنے والے

کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں

پھول دامن میں چند رکھ لیجئے

راستے میں فقیر ہوتے ہیں

زندگی کے حسین ترکش میں

کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں

وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں

سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں

اے عدم احتیاط لوگوں سے

لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

خواجگی

دور حاضر ہے حقیقت میں وہی عہد قدیم

اہل سجادہ ہیں یا اہل سیاست ہیں امام

اس میں پیری کی کرامت ہے نہ میری کا ہے زور

سیکڑوں صدیوں سے خوگر ہیں غلامی کے عوام

خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی

پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام