آپ کا اعتبار کون کرے

آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے

ذکر مہر و وفا تو ہم کرتے
پر تمہیں شرمسار کون کرے

جو ہو اوس چشم مست سے بیخود
پھر اوسے ہوشیار کون کرے

تم تو ہو جان اِک زمانے کی
جان تم پر نثار کون کرے

آفتِ روزگار جب تم ہو
شکوہء روزگار کون کرے

اپنی تسبیح رہنے دے زاہد
دانہ دانہ شمار کون کرے

ہجر میں زہر کھا کے مر جاؤں
موت کا انتظار کون کرے

آنکھ ہے ترک زلف ہی صیّاد
دیکھیں دل کا شکار کون کرے

غیر نے تم سے بیوفائی کی
یہ چلن اختیار کون کرے

وعدہ کرتے نہیں یہ کہتے ہیں
تجھ کو امیدوار کون کرے

داغ کی شکل دیکھ کر بولے
ایسی صورت کو پیار کون کرے

یوں چلئے راہِ شوق میں جیسے ہوا چلے

یوں چلئے راہِ شوق میں جیسے ہوا چلے
ہم بیٹھ بیٹھ کر جو چلےبھی تو کیا چلے

بیٹھے اُداس اُٹھے پریشان خفا چلے
پوچھے تو کوئی آپ سے کیا آئے کیا چلے

آئینگی ٹوٹ ٹوٹ کر قاصد پر آفتیں
غافل اِدھر اُدھر بھی ذرا دیکھتا چلے

ہم ساتھ ہو لئے تو کہا اُس نے غیر سے
آتا ہے کون اس سے کہو یہ جُدا چلے

بالیں سے میرے آج وہ یہ کہہ کے اُٹھے گی
اس پر دوا چلے نہ کسی کی دعا چلے

موسیٰ کی طرح راہ میں پوچھی نہ راہ راست
خاموش خضر ساتھ ہمارے چلا چلے

افسانہء رقیب بھی لو بے اثر ہوا
بگڑی جو سچ کہے سے وہاں جھوٹ کیا چلے

رکھا دل و دماغ کو تو روک تھام کر
اس عمر بیوفا پہ مرا زور کیا چلے

بیٹھا ہے اعتکاف میں‌کیا داغ روزہ دار
اے کاش میکدہ کو یہ مردِ خدا چلے

کب سماں تھا بہار سے پہلے

کب سماں تھا بہار سے پہلے
غم کہاں تھا بہار سے پہلے

ایک ننھا سا آرزو کا دیا
ضوفشاں تھا بہار سے پہلے

اب تماشا ہے چار تنکوں‌کا
آشیاں تھا بہار سے پہلے

اے مرے دل کے داغ یہ تو بتا
تو کہاں تھا بہار سے پہلے

پچھلی شب میں خزان کا سناٹا
ہم زباں‌تھا بہار سے پہلے

چاندنی میں‌یہ آگ کا دریا
کب رواں تھا بہار سے پہلے

بن گیا ہے سحابِ موسمِ گل
جو دھواں تھا بہار سے پہلے

لُٹ گئی دل کی زندگی ساغر
دل جواں‌تھا بہار سے پہلے